غزوہ احزاب ماضی و حال کے آئینہ میں (2)

پہلی قسط میں غزوہ احزاب کی وجوہات، آنحضرت ﷺ کی حکمت عملی اور یہودومنافقین کی غداری کے بارے میں آپ پڑھ چکے آیئے اب جنگ کے نظارے کرتے ہیں۔

آپ ﷺ غزوہ احزاب کے دوران شمعِ نبوت کے تین ہزار پروانوں کو لے کر اسلامی ریاست کے دفاع کے لئے جبلِ سلع کے پاس آکر ٹھہرےہوئے تھے اور دوسری جانب لشکرِ کفار، فریقین کے درمیان خندق ہونے کی وجہ سے دونوں جانب سے ایک دوسرے پر تیراندازی کی جاتی اور کفار پوری کوشش کرتے کہ کسی طرح مسلمانوں کو پیچھے دھکیل کر خندق عبور کر لیں اس مقصد کے لئے انہوں نے مختلف دستے ترتیب دے رکھے تھے روزانہ ایک نئے سالار کی ماتحتی میں زوردار حملہ کیا جاتا اور شدت سے تیر اندازی   کی جاتی تاکہ مسلمان پیچھے ہٹیں اور کفار گھوڑے کودا کر خندق پار کر لیں ،لیکن مسلمانوں کی استقامت اور جوابی تیر اندازی کی وجہ سے کفار کی ہر کوشش ناکام رہتی،

کو پڑھنا جاری رکھیں

جہاد غلبہ اسلام کا راستہ

اگر اسلام کے غلبے کا کوئی اور راستہ  اور طریقہ بھی ہوتا تو اللہ تعالیٰ کبھی اپنے حبیب ﷺ  کو دشوار ترین عمل یعنی جہاد کا حکم نہ دیتا آج نجانے کیوں ہم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ امت اپنے اعمال درست کر لے تو سب مصائب خود ختم ہو جائیں گے،ہاں ضرور ختم ہو جائیں گے لیکن ان اعمال میں جہاد کو بھی شامل کرنا ہو گا صرف نماز ، روزے، ذکر و وظائف ، تعلیم و تعلم اور دعوت و تبلیغ سے اسلام کا کلمہ بلند نہیں ہو گااور نہ کفر کا غلبہ ختم ہو گا۔کیونکہ اسلام کو چودہ سو سال پہلے جو غلبہ حاصل ہوا تھا وہ جہاد ہی کی بدولت ہوا تھا اور جہاد ہی کی بدولت لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوتے تھے۔اگرآپ ﷺ  کی مکی و مدنی زندگی کا موازنہ کیا جائے تو آپ ﷺ  مکہ مکرمہ میں تیرہ سال لوگوں کو اسلام کی طرف بلاتے رہے

کو پڑھنا جاری رکھیں

فتح و شکست کے بارے میں قانونِ الٰہی

اللہ تعالیٰ نے قراٰن مجید میں اپنا ضابطہ بیان کیا ہے کہ ان یمسسکم قرح ۔الی۔ ویمحق الکافرین (سورہ آلِ عمران آیت140، 141) ان آیات کی تفسیر میں مفسر قراٰن مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب ؒ  حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ  کی تفسیر بیان القراٰن سے نقل کرتے ہیں”اگر تم کو زخم (صدمہ) پہنچ جاوےجیسا احد میں ہوا تو کوئی گھبرانے کی بات نہیں کیونکہ اس میں چند حکمتیں ہیں ، ایک تو یہ کہ اس قوم کو بھی جو کہ تمہارے مقابل تھی یعنی کفار ایسے ہی زخم (صدمہ) پہنچ چکا ہے چنانچہ گذشتہ جنگ بدر میں وہ صدمہ اٹھا چکے ہیں اور ہمارا معمول ہے کہ ان ایام کویعنی غالب و مغلوب ہونے کے زمانے کو لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں یعنی کبھی ایک قوم کو غالب اور دوسری کو مغلوب کر دیا ،

کو پڑھنا جاری رکھیں

اشعار (1)

محبت

ہم نے فانی ڈوبتی دیکھی ہے نبضِ کائنات

جب  مزاجِ  یار  کچھ  برہم نظر آیا  مجھے

 

نفس و شیطاں سے کشتی

نہ  چت کر سکے نفس کے  پہلواں کو

تو یوں ہاتھ پاؤں بھی ڈھیلے  نہ ڈالے

کو پڑھنا جاری رکھیں

غزوہ احزاب ماضی و حال کے آئینہ میں (1)

روزِ اول سے ہی دنیا میں حق و باطل کے درمیان معرکے جاری ہیں انہیں معرکوں میں سے ایک اہم اور ناقابلِ فراموش معرکہ سن ۵ ہجری میں پیش آیا جسے غزوہ احزاب اور غزوۂ خندق کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ غزوہ اس جنگ کو کہتے ہیں جس میں ہمارے جنگجو نبی حضرت محمد ﷺنے خود بنفسِ نفیس شرکت فرمائی ہو۔ آپ ﷺ کو جنگوں میں شرکت اس قدر پسند تھی کہ فرمایا "اس ذات کی قسم جسکے قبضے میں میری جان ہے اگر ایمان والوں کو میرے جنگ پر جانے کی وجہ سے مجھ سے پیچھے رہ جانا شاق نہ گزرتا تو میں کسی جنگ سے پیچھے نہ رہتا بلکہ ہر جنگ میں شریک رہتا اور میرے پاس اتنی سواریاں بھی نہیں کہ سب کو اپنے ساتھ لے جا سکوں اس لئےپیچھے رہ جانے والوں کی دلجوئی کےلئے بعض جنگوں میں شرکت سے رہ جاتا ہوں” (بخاری و مسلم)۔

کو پڑھنا جاری رکھیں

حکایات (تقلید، قادیانیت، دیانت علماء)

تقلید:

 ایک مرتبہ ایک انجینئر ملے اور مجھ سے کوئی سوال کیا میں نے کہا کہ یہ فنِ بلاغت کے متعلق ہے آپ اس کو نہ سمجھ سکیں گے، کہنے لگے کہ واہ صاحب! عالم وہ ہے کہ ہر شخص کو اس کے فہم کے مطابق سمجھا دے میں نے کہا کہ بہتر ، مجھے آپ اقلیدس کے مقالۂ اول کی پانچویں شکل سمجھا دیجئے لیکن اس طرح کہ نہ تو اصولِ موضوعہ کا حوالہ ہو، نہ علومِ متعارفہ کا واسطہ، اگر اس طرح سمجھانا ممکن ہے تو میں اس تقریر کے سننے کا بہت زیادہ مشتاق ہوں اوراگر اس طرح سمجھانا ممکن نہیں تو میں کہوں گا کہ عالمِ اقلیدس وہی ہے جو ہر شخص کو اس کے فہم کے مطابق سمجھا دے۔ کہنے لگے اچھا تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟

کو پڑھنا جاری رکھیں

جہاد بیزاری سے جہادی بیداری تک

جہاد وہ فریضہ ہے کہ غلبہ اسلام ، مسلمانوں کا عروج اور کفار کی شوکت کا خاتمہ صرف اسی فریضے کی ادائیگی پر موقوف ہے جیسا کہ خالقِ خیر و شر نے اپنے کلام پاک  میں فرمایا ھوالذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ(سورہ فتح آیت 28 ) "اللہ وہ ذات ہے جس نے اپنے رسول کو بھیجا ہدایت اور دینِ حق دے کر تا کہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب کر دے ” اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ﷺ کی بعثت کا مقصد بیان کیا کہ  آپ کو بھیجنے کا مقصد صرف یہ نہیں کہ آپ لوگوں پر اسلام پیش کریں ،انہیں اسلام کی دعوت دیں اورجو اس دعوت کو قبول کر کے مسلمان ہو جائیں اور آپکی اتباع اختیار کر لیں تو آپ انکی اصلاح کریں ،

کو پڑھنا جاری رکھیں

توبہ کی شرائط

شیخ محی الدین ابو زکریا نووی ؒنے شرح مسلم میں فرمایا کہ توبہ کی قبولیت کی تین شرطیں ہیں:

توبہ کی قبولیت کی پہلی شرط:

جس گناہ میں مبتلا ہے اس سے بالکل الگ  ہو جائے۔ مثلا کوئی شخص نماز نہیں پڑھتا تو وہ نماز پڑھنا شروع کر دے ، کوئی شخص ڈاڑھی منڈاتا ہے تو وہ ڈاڑھی رکھ لے، کوئی شخص سود کھاتا ہے تو وہ سود لینا چھوڑ دے ، کوئی شخص بد نظری کرتا ہے تو وہ بدنظری چھوڑ دےوغیرہ وغیرہ۔

کو پڑھنا جاری رکھیں